آزاد کشمیر انتخابی مہم، مریم نواز، بازی لے گئیں


یہ ماننا پڑے گا مریم نواز نے آزاد کشمیر میں ایک بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے انتھک اور پر عزم سیاسی رہنما کے طور پر خود کو منوایا ہے۔ وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ جلسے کئے اور سب سے زیادہ جگہوں پر گئیں۔ 

بلاول بھٹو زرداری اچانک آزاد کشمیر انتخابات کی مہم سے نکل گئے اور ان کا خلا پورا کرنے کے لئے آصفہ بھٹو کو بھیجا گیا۔ انہوں نے ایک دو جلسوں میں رنگ جمایا مگر جو مہم مریم نواز کی موجودگی میں مسلم لیگ (ن) نے چلائی اس کا کوئی مقابلہ نہیں، وزیر اعظم عمران خان خود بھی آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں حصہ لینے باغ اور بھمبر گئے، جلسے کئے تاہم واقفانِ حال کا کہنا ہے ان کے جلسے بھی مریم نواز کے جلسوں سے چھوٹے تھے۔ اب مریم نواز نے یہ طنز کیا وزیر اعظم باغ میں جلسہ نہ کرتے تو ان کا بھرم رہ جاتا۔ لوگ حیران ہیں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف آزاد کشمیر نہیں گئے اور انہوں نے انتخابی مہم میں بالکل حصہ نہیں لیا۔ حالانکہ انہیں نوازشریف نے بھی کہا تھا وہ مریم نواز کے ساتھ مل کر آزاد کشمیر میں عوامی جلسوں سے خطاب کریں، لگتا یہی ہے شہباز شریف خود کو مریم نواز سے فاصلے پر رکھنا چاہتے ہیں اس کی وجہ شاید کوئی اختلاف نہ ہو لیکن یہ ضرور ہے شہباز شریف اس وقت بہت محتاط اننگ کھیل رہے ہیں ان کا سارا فوکس وزیر اعظم اور ان کی حکومت پر ہے، پس پردہ قوتوں کے ساتھ وہ اُلجھنا نہیں چاہتے جبکہ مریم نواز اس حوالے سے جارحانہ مزاج رکھتی ہیں، انہوں نے کل بھی ایک جلسے میں کہا ہے سیم پیج والے اب شیم پیج پر ہیں۔ شاید یہ بھی مسلم لیگ (ن) کی حکمتِ عملی ہے، ایک جلتی پر تیل ڈالے تو دوسرا پانی کا ڈول لے کر تیار کھڑا ہو۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے اگر آزاد کشمیر انتخابات کی مہم شہباز شریف لیڈ کرتے تو اتنی کامیابی نہ ہوتی اور نہ ہی اتنے بڑے بڑے جلسے ہو سکتے۔ عوام سخت جملے، سخت باتیں سننا چاہتے ہیں، وہ اس وقت حالات کے ہاتھوں خاصے تنگ ہیں اور دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں۔

تحریک انصاف نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کو علی امین گنڈا پور جیسے وزراء کے سپرد کر کے خود کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ علی امین گنڈا پور کو جوتی پڑ گئی ا ور ایک دوسری جگہ انہیں مشتعل افراد سے بچنے کے لئے فائرنگ کرنی پڑی۔ ایک انتخابی مہم میں اگر وزیر کو خود فائرنگ کر کے جان چھڑانی پڑ جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ مہم کس انداز میں جاری تھی، پھر انہوں نے اپنی تقریروں میں متنازعہ باتیں کیں نازیبا الفاظ استعمال کئے، ان کی اس بات نے تو غم و غصے کی لہر دوڑا دی کہ ذوالفقار علی بھٹو غدار تھے۔ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والوں کو عوام اب ویسے ہی اچھا نہیں سمجھتے چہ جائیکہ ایک وزیر جس کی اپنی عمر اتنی نہیں جتنی مدت ذوالفقار علی بھٹو کو دنیا سے گزرے ہو چکی ہے، ان پر غداری کا الزام لگائے۔ جس نوجوان نے علی امین گنڈا پور کو جوتا مارا، اسے غصہ اسی بات کا تھا گرفتاری کے بعد جب وہ نوجوان ضمانت پر رہا ہوا تو اس کا تاریخی استقبال اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ لوگ اب ایسے گھسے پٹے الزامات سننے کو تیار نہیں۔ علی امین گنڈا پور کی اپنی سرگرمیوں کے باعث الیکشن کمیشن آزاد کشمیر نے انہیں آزاد کشمیر سے نکل جانے کا حکم دیا۔ کیا یہ سب باتیں وزیر اعظم عمران خان کے علم میں نہیں تھیں، حیرت ہے انہوں نے علی امین گنڈا پور سے باز پرس نہیں کی۔ وہ خود الیکشن مہم میں حصہ لینے آزاد کشمیر گئے تو حالات ان کے حق میں ساز گار نہیں تھے، لوگ اتنی بڑی تعداد میں ان کے جلسوں میں نہیں آئے جتنی بڑی تعداد میں مریم نواز کے جلسوں میں آتے رہے۔

یہ بات واضح ہے مسلم لیگ (ن) نے آزاد کشمیر انتخابات کو بہت زیادہ سنجیدہ لیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی غیر سنجیدگی اس وقت واضح ہو گئی جب بلاول بھٹو زرداری درمیان میں الیکشن مہم چھوڑ کر امریکہ چلے گئے۔ ایسی کوئی خاص ایمرجنسی بھی نہیں بتائی گئی جس کے باعث ان کا امریکہ جانا ضروری تھا، دوسری طرف تحریک انصاف کی غیر سنجیدگی بھی اس بات سے عیاں ہے کہ الیکشن مہم کو علی امین گنڈا پور جیسے غیر سنجیدہ لوگوں کے سپرد کر دیا گیا۔ جنہیں دلیل سے بات کرنے کا ڈھنگ آتا ہے اور نہ انہیں اپنی زبان پر کنٹرول ہوتا ہے۔ صرف مریم نواز ہی وہ رہنما ہیں جو آزاد کشمیر میں جم کر بیٹھ گئیں لاہور سے نکلیں تو پھر انتخابی مہم کی تکمیل تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اسے ان کی طوفانی الیکشن مہم کہا جا سکتا ہے، نوازشریف بھی پاکستان میں ہوتے تو شاید ایسی مہم نہ چلا پاتے۔ ایک سیاسی رہنما کے طور پر مریم نواز نے ہر اس ضمنی الیکشن میں خود کو منوایا ہے، جو اس حکومت کے دور میں ہوا اور اب آزاد کشمیر کے انتخابات میں ایک کامیاب مہم چلا کے وہ مسلم لیگ (ن) کی جیت کے آثار کو نمایاں کر چکی ہیں ایک کامیاب انتخابی مہم چلانا شاید ان کی اس لئے بھی ضرورت تھی کہ انہیں انتخابی نتائج میں گڑبڑ کا اندیشہ ہے۔ وہ بڑے بڑے جلسوں کے ذریعے کسی متوقع ”انہونی“ کا سد باب کرنا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ مسلسل یہ وارننگ بھی دے رہی ہیں اگر انتخابات میں دھاندلی کرنے کی کوشش کی گئی تو حالات کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔ انہوں نے یہ تک کہا ہے نہ اب پہلے والے حالات ہیں اور نہ یہ پہلے والی مسلم لیگ (ن) ہے پیغام وہ کسے دے رہی ہیں، اس بارے میں حالات پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں۔

بنظرِ غائر دیکھا جائے آزاد کشمیر الیکشن کی مہم کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے اسے اپنی عوامی مقبولیت دکھانے کا موقع مل گیا ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے نوازشریف آج بھی پاکستانی سیاست کا ایک جیتا جاگتا اور مقبول کردار ہیں مریم نواز اپنی تقریروں میں بار بار ان کا حوالے دیتی ہیں، انہوں نے آزاد کشمیر کے جلسوں میں یہ بھی کہا ہے نوازشریف کو مائنس کرنے والے دیکھ لیں نوازشریف آج بھی پلس ہے میں پہلے بھی کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں، سیاسی رہنما اس طرح ختم نہیں ہوتے کہ اُنہیں سیاست سے دور یا نا اہل کر دیا جائے۔ اس طرح تو وہ مزید زندگی پا جاتے ہیں۔ نوازشریف اس وقت تک ایک سیاسی حقیقت ہیں جب تک مسلم لیگ (ن) موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) آج بھی ایک مقبول اور بڑی سیاسی جماعت ہے۔ نوازشریف کا عوام پر اثر کتنا زیادہ ہے، اس کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے لوگ شہباز شریف کے جلسوں میں کم اور مریم نواز کے جلسوں میں زیادہ آتے ہیں کیونکہ شہبازشریف اپنے بڑے بھائی کا بیانیہ نہیں دہراتے جبکہ مریم نواز کی تقریر کا آغاز و اختتام ہی نوازشریف کے بیانیئے سے ہوتا ہے اور وہ بڑی تیزی سے مسلم لیگ (ن) پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہیں۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی