ڈی جی آئی ایس پی آر نے چند روز پہلے فرمایا کہ اب ہمیں دنیا کی نظر میں اپنا امیج بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
جناب آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ آپ ذاتی مفادات کی خاطر شدت پسندوں کو پالنا اور استعمال کرنا ترک کر دیں، سیاسی انجنیئرنگ کرنے سے باز آ جائیں، خارجہ پالیسی سولینز کے حوالے کر کے پڑوسی ممالک میں پراکسی جنگیں بند کر دیں تو امیج خودبخود بہتر ہو جائے گا۔
چلیں آج آپ کو آئینہ دکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آپ کے اس شدت پسندوں کو پالنے کے شوق نے ہمارے ملک کو کیا نقصان پہنچایا اور کس طرح دنیا بھر میں ہونے والے دہشتگردی کے ہر بڑے واقعے سے پاکستان کا براہراست تعلق رہا ہے۔
جنوری 1993، سی آئی اے ہیڈ کوارٹر لینگلی، ورجینیا کے مقام پر فائرنگ کر کے سی ائی اے کے دو اہلکاروں کو قتل کر دیا گیا۔ چار سال بعد جب قاتل پکڑا گیا تو پتہ چلا کہ ایمل کانسی نامی کہلانے والے اس شخص کا اصل نام میر قاضی تھا اور یہ پاکستانی تھا۔
فروری 1993 میں امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ٹرک میں دھماکہ خیز مواد رکھ کر اڑایا گیا۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ اس دھماکے کا ذمہ دار رمزی یوسف تھا جو کہ 1995 میں پاکستان کے شہر اسلام آباد سے پکڑا گیا۔
اگست 1998 میں دو افریقی ممالک کینیا اور تنزانیہ میں واقع امریکی سفارتخانوں پر بم حملے ہوئے جن میں 220 افراد ہلاک اور 4000 افراد زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں کی پلاننگ کرنے والے احمد خلفان گھیلانی کو 2004 میں پاکستان کے شہر گجرات سے گرفتار کیا گیا۔
اکتوبر 2000 میں امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس کول پر ایک خودکش حملہ ہوا۔ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ ولید بن اتاش 2003 میں پاکستان کے شہر کراچی سے گرفتار ہوا۔
مئی 2002 میں پاکستان کے شہر کراچی میں واقع شیریٹن ہوٹل میں خودکش دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 11 فرانسیسی انجینیئر ہلاک ہو گئے۔ اس دھماکے کی منصوبہ سازی کرنے والا مفتی محمد شبیر پاکستانی تھا۔
فروری 2002 میں ایک امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو پاکستان سے اغوا کیا گیا اور پھر قتل کر دیا گیا۔ صحافی کے قتل میں عمر شیخ نامی ایک پاکستانی ملوث تھا جو 1994 میں بھارت میں سیاحوں کے اغوا کے جرم میں سزا کاٹ چکا تھا۔ عمر شیخ کو ڈینیئل پرل کے قتل کے جرم میں پاکستانی عدالت نے 2002 میں موت کی سزا سنائی لیکن 2020 میں اعلی عدالت نے فوج کی سفارش پر یہ سزا معاف کر دی۔ 2007 میں امریکی فوج کی تفتیش کے دوران القاعدہ کے لیڈر اور پاکستانی شہری خالد شیخ محمد نے اعتراف کیا تھا کہ ڈینیئل پرل کا سر اس نے اپنے ہاتھوں سے کاٹا تھا۔
ستمبر 2001 میں امریکہ میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دو مسافر جہاز ٹکرا کر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کا مرکزی منصوبہ ساز خالد شیخ محمد ایک پاکستانی تھا جسے مارچ 2003 میں پاکستان کے شہر راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا۔ خالد شیخ محمد دینیئل پرل کے قتل میں بھی ملوث تھا۔
مارچ 2002 میں القائدہ نامی دہشتگرد تنظیم کے لیڈر ابو زبیدہ کو پاکستان کے شہر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔ ابو زبیدہ پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے علاوہ مزہد کئی الزامات تھے۔
مارچ 2002 میں رمزی بن شیبھ نامی ایک یمنی کو پاکستان کے شہر کراچی سے گرفتار کیا گیا۔ رمزی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا خاص سہولتکار تھا۔
جون 2004 میں نیک محمد وزیر نامی جہادی لیڈر پاکستان کے علاقے جنوبی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں مارا گیا۔
مئی 2005 میں لیبیا سے تعلق رکھنے والے ابو فاراج نامی القائدہ کے لیڈر کو پاکستان کے شہر مردان سے گرفتار کیا گیا۔ اس کا ساتھی امجد فاروقی کاروائی کے دوران مارا گیا۔ امجد فاروقی ایک پاکستانی شہری تھا اور امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا میں ملوث تھا۔
اپریل 1985 میں سپین میں واقع ایک ریسٹورینٹ پر بم حملہ کر کے 14 افراد کو ہلاک کیا گیا۔ مارچ 2004 میں سپین کے شہر میڈریڈ میں ٹرینوں پر بم حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 200 افراد ہلاک اور 2000 زخمی ہوئے۔ ان حملوں کا منصوبہ ساز مصطفی سیٹ ماریم مئی 2005 میں پاکستان کے شہر مردان سے گرفتار ہوا۔
جولائی 2007 میں پاکستان کے دارالحکومت میں واقع لال مسجد پر فوجی آپریشن ہوا اور اس کے نتیجے میں وہاں کے مہتمم مولوی عبد العزیز سمیت کئی شدت پسند ہلاک ہوئے۔ عبدالعزیز اور اس کے بھائی عبدالرشید کے قبضے سے القائدہ کے لیڈر ایمن الظواہری کے خطوط برامد ہوئے۔ ایمن الظواہری ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے علاوہ اسلام آباد میں مصری سفارت خانے پر حملے میں بھی ملوث تھا۔
نومبر 2008 میں بھارت کے شہر ممبئی میں دہشتگردی کا واقع ہوا جس میں مختلف جگہوں پر فائرنگ اور دھماکوں کے زریعے 200 افراد کو ہلاک ہوئے۔ دہشتگردوں میں سے زندہ گرفتار ہونے والا واحد شخص اجمل قصاب پاکستانی شہری تھا جس کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا۔
جولائی 2008 میں عافیہ صدیقی نامی ایک پاکستانی خاتون کوافغانستان میں گرفتار کیا گیا. عافیہ کا تعلق القاعدہ سے تھا اور وہ خالد شیخ محمد کے لیئے پیغام رسانی کرنے کے علاوہ امریکی اہلکاروں پر حملے میں ملوث تھی۔
مارچ 2009 میں پاکستان کے شہر لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا جس میں خودکار ہتھیار استعمال ہوئے اور 3 پولیس والوں سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعے میں 6 سری لنکن کھلاڑی زخمی ہوئے جس کے بعد عالمی برادری نے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دیا۔
اگست 2009 میں تحریک طالبان پاکستان کا لیڈر بیت اللہ محسود پاکستان کے علاقے بنوں میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاک ہوا۔
مئی 2010 میں امریکہ میں واقع نیویارک ٹائمز کے دفتر پر بم حملے کی کوشش کی گئی جو کہ سیکیورٹی اداروں کی بروقت کاروائی کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ حملہ آور گرفتار ہوا تو پتہ چلا ہے کہ فیصل شہزاد نامی یہ شخص پاکستانی تھا۔
مئی 2011 میں پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں امریکی فوج نے حملہ کر کے دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشتگرد اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ اسامہ امریکہ میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور لاکر بی حملے کے علاوہ متعدد دیگر کاروائیوں میں بھی ملوث تھا۔
اپریل 2013 میں طالبان لیڈر ملا عمر پاکستان کے شہر کراچی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گیا۔ ملا عمر کراچی میں زیر علاج تھا۔
دسمبر 2015 میں امریکہ میں واقع سان برڈینیو کے علاقے میں فائرنگ کر کے 14 افراد کو ہلاک اور 22 کو زخمی کر دیا گیا۔ فاروق اور تاشفین ملک نامی حملہ آور گرفتار ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ دونوں پاکستانی تھے۔
مئی 2016 میں تحریک طالبان کا لیڈر ملا منصور پاکستان کے علاقے احمد وال میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاک ہوا۔
یہ تو تھے عالمی دھشتگردی کے واقعات۔ اب ہم بات کرتے ہیں پاکستان میں ہونے والے چند واقعات کی۔
22 مئی 2011 کو کراچی میں واقع نیوی کے مہران بیس پر تحعیک طالبان کا حملہ ہوا جس میں کئی ہلاکتیں ہوئیں اور قیمتی جہازوں سمیت اربوں روپوں کا سازو سامان تباہ ہوا۔ ایک صحافی سلیم شہزاد نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ فوج کے اپنے اہلکار اس حملے کی معلومات دھشتگردوں کو دینے میں ملوث تھے۔ صحافی نے مزید انکشافات کرتے ہوئے فوج کے کئی سابق اہلکاروں کے القائدہ اور طالبان کے ساتھ روابط کو بے نقاب کیا۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سلیم شہزاد کو اسلامآباد سے اغوا کر لیا گیا اور بعد میں قتل کر کے لاش جنگل میں پھینک دی گئی۔ آج تک اغواکاروں اور قاتلوں کا پتہ نہیں چلا۔
اپریل 2017 میں پاکستانی فوج نے اعلان کیا کہ تحریک طالبان کا رکن اور جماعت الاحرار کے لیڈر احسان اللہ احسان نے گرفتاری دے دی ہے۔ احسان اللی احسان آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کے قتل کے علاوہ پاکستان اور افغانستان میں دہشتگردی کے کئی واقعات میں ملوث تھا۔ اس دھشتگرد کو پاکستانی فوج نے وی آئی پی کے طور پر رکھا اور یہاں تک کہ ٹی وی پر اس کا انٹرویو بھی چلایا۔ لیکن پھر پتہ چلا کہ 2020 میں یہ دھشتگرد فوج کی تحویل سے فرار ہو گیا۔ ایک دھشتگرد کو آرام دہ گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ کیوں رکھا ہوا تھا؟ وہ فوج کی تحویل سے کیسے فرار ہوا، فرار کے ذمہ دار کون تھے یہ بات آج تک سامنے نہیں آئی اور نہ کسی کو کوئی سزا ملی۔
اپریل 2017 میں لاہور میں دھشتگردوں کے خلاف کاروائی ہوئی۔ اس کاروائی میں چار دھشتگرد مارے گئے جبکہ ان کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد بھی برامد ہوا۔ اس کاروائی میں ایک لڑکی نورین لغاری گرفتار ہوئی جس نے اعتراف کیا کہ اس کا تعلق داعش سے ہے اور اس نے شام میں دھشتگردی کی باقائدہ ٹریننگ حاصل کی ہے۔ نورین نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس نے اگلے روز ایک چرچ پر بم حملہ کرنا تھا۔ اس اعتراف کے باوجود فوج نے نورین لغاری کو بری کر دیا اور اس کے بعد وہ غائب ہو گئی۔
نومبر 2018 میں پاکستان کے شہر اسلام آباد میں مولانا سمیع الحق کو ایک گھر میں قتل کر دیا گیا۔ سمیع الحق کو طالبان کا باپ کہا جاتا تھا اور اس کے طالبان لیڈر ملا عمر کے ساتھ دیرینہ تعلقات تھے۔ فوج کی سفارش پر اسے اکثر حکومت کی طرف سے گرانٹ اور چندہ ملتا رہتا تھا۔
آج سے تین دن پہلے لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں ایک بم دھماکہ ہوا جس میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ اس بم دھماکے کے بارے میں عوام کو کچھ نہیں بتایا گیا۔ دراصل یہ دھماکہ حافظ سعید نامی ایک شدت پسند لیڈر کے گھر پر ہوا۔ حافظ سعید عالمی برادری کی طرف سے دھشتگرد قرار دیا جا چکا ہے اور اس کو پچھلے دنوں پاکستانی عدالت نے دھشتگردی کے جرم میں گیارہ سال کی سزا سنائی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ وہ جیل میں ہے لیکن دھماکے کے بعد پتہ چلا کہ حافظ سعید جیل میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں موجود تھا اور دھماکے کے بعد اسے خاموشی سے جیل منتقل کر دیا گیا۔ ایک عالمی سطح پر مطلوب، سزایافتہ شخص کو جیل کی بجائے گھر میں کیوں اور کس نے رکھا ہوا تھا یہ بات کبھی سامنے نہیں آئے گی۔
اس کے علاوہ کئی پاکستانی عالمی برادری کی طرف سے دہشتگرد قرار دیئے جا چکے ہیں جیسے ملک اسحاق، غنی عثمان، زکی الرحمن لکھوی، مسعود اظہر، صوفی محمد وغیرہ۔ یہ سب پاکستان میں نہ صرف موجود ہیں بلکی اکثر جلسوں میں خطابات بھی کرتے ہیں اور انہیں فوج کی ہمایت حاصل ہے۔
اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ہونے والے دھشتگردی کے مشہور واقعات میں یا تو پاکستانی شہری براہراست ملوث تھے یا پھر جو ان واقعات میں ملوث غیر ملکی دھشتگرد گرد گرفتار ہوئے وہ پاکستان کی سرزمین سے گرفتار ہوئے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ تمام عالمی دھشتگرد پاکستان میں ہی پائے گئے اور پاکستان سے ہی گرفتار ہوئے یا ہلاک ہویے؟
پاکستان میں ایسا کیا تھا کہ دنیا بھر کے دھشتگرد یہاں آ کر پناہ لیتے رہے ہیں؟
ڈی جی آئی ایس پی آر پہلے عوام کو اس سوال کا جواب دیں پھر اپنا امیج بدلبے کے بارے میں سوچیں۔