کیا نواز شریف کے لئے جرأت مندانہ سیاسی فیصلے کا وقت آ گیا ہے؟برطانوی ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اُن کے ویزہ میں مزید توسیع کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اگرچہ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے اور اُن کے پاس برطانوی عدالتوں میں جانے کا راستہ بھی موجود ہے تاہم جلد یا بدیر اُنہیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اُنہیں کب اور کس وقت پاکستان آنا ہے۔اُن کا پاسپورٹ ختم ہو چکا ہے، وہ لندن سے کسی اور ملک نہیں جا سکتے، جبکہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے نواز شریف پاکستان آنا چاہیں، تو اُنہیں فوری سفری دستاویزات جاری کر دی جائیں گی۔ سوال یہ ہے اگر نواز شریف علاج کے لئے لندن میں مقیم ہیں تو برطانوی محکمہ داخلہ نے انہیں ویزے میں توسیع دینے سے انکار کیوں کیا؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے نواز شریف علاج کے لئے کسی ہسپتال میں داخل ہوئے ہی نہیں،برطانیہ میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کسی سیاسی رہنما کو ویزے میں توسیع دینے سے انکار کیا جائے۔نواز شریف کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے،اس کی وجوہات تو سامنے نہیں آئیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے عالمی طاقتیں اس نازک موقع پر جب افغانستان کی صورتِ حال کشیدہ ہے، پاکستان میں سیاسی انتشار بڑھانے کے لئے نواز شریف کو پاکستان بھیجنا چاہتی ہیں۔ یہ قیاس آرائی بھی ہو سکتی ہے۔ نواز شریف فی الوقت خود پاکستان نہیں آنا چاہتے،اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔واپس آنے کی صورت میں اُنہیں سیدھا جیل بھیج دیا جائے گا۔اُن کی صحت کے مسائل بہرطور موجود ہیں، جو یہاں جیل کی زندگی میں زیادہ شدت اختیار کر سکتے ہیں۔وہ عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں،مگر اس کے لئے اُن کا پاکستان واپس آنا ضروری ہے،کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ اُن کے سرنڈر کرنے کی شرط عائد کر چکی ہے۔
شہباز شریف نے انہیں پاکستان واپس آنے سے روک دیا ہے اور برطانیہ میں علاج کے لئے قیام کی مدت بڑھانے پر زور دیا ہے، اس کے لئے اپیل اور عدالتوں کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔دونوں بھائیوں کے درمیان اس پر اتفاق ہوا ہے کہ نواز شریف لندن ہی میں رہیں گے اور اس کے لئے ہر قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا۔پاکستان میں نواز شریف کا اسٹیٹس اب ایک عدالتی مفرور کا ہے،جسے برطانیہ میں بہت سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ پھر نواز شریف کے پاس قانونی سفری دستاویزات بھی نہیں،انہوں نے نئے پاسپورٹ کی درخواست بھی نہیں دی،ایک طرح سے اُن کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے وہ برطانیہ سے امریکہ، سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک میں نہیں جا سکتے،وہ صرف پاکستان واپس آ سکتے ہیں اور وہ بھی اُس صورت میں جب پاکستانی سفارت خانہ اُن کا پاسپورٹ یا سفری دستاویزات جاری کر دے یا پھر دوسرا آپشن یہ ہے وہ علاج کے لئے لندن کے کسی ہسپتال میں داخل ہو جائیں اور اُن کا باقاعدہ علاج شروع ہو جائے،جس کی بنیاد پر اُن کے ویزے کی مدت میں توسیع ہو سکتی ہے۔ ایک تیسرا راستہ بھی موجود ہے،مگر نواز شریف اُسے استعمال نہیں کریں گے۔ وہ راستہ ہے سیاسی پناہ کا، سیاسی پناہ کے لئے درخواست دے کر وہ پاکستان میں اپنی سیاست کو شدید نقصان پہنچائیں گے،کیونکہ اُس کے لئے بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔
اس وقت نواز شریف ایک امتحان سے گزر رہے ہیں وہ اپنے اصولی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اُسے چھوڑنے کو تیار نہیں،وہ اگر لچک کا مظاہرہ کریں تو شہباز شریف حالات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،تاہم نواز شریف غالباً ایسی مفاہمت نہیں چاہتے،جو اُن کے اس بیانیے کو نقصان پہنچائے،جسے وہ اب تک لے کر چل رہے ہیں۔پاکستان میں مفاہمت کسے کہتے ہیں،کیسے ہوتی ہے، سبھی جانتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایسی مفاہمت میں کلیدی ہوتا ہے،نواز شریف ”مجھے کیوں نکالا؟“ اور ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگا کر ندی کے دوسری طرف چلے گئے ہیں۔ اب اُن کے لئے مشکل یہ ہے ندی کے پار کیسے آئیں۔
وہ اگر اپنے بیانیے کو چھوڑتے ہیں تو سیاسی طور پر ختم ہو جاتے ہیں،بیانیے پر قائم رہتے ہیں تو اُن کے گرد گھیرا تنگ ہوتا ہے۔شہباز شریف ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،مگر انہیں نواز شریف سے اجازت نہیں مل رہی۔ وہ ایسے کسی حل یا مفاہمت کے حق میں نظر نہیں آتے جو نواز شریف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچائے۔ البتہ نواز شریف کو آہستہ آہستہ یہ احساس ہو جائے گا کہ وہ بیرون ملک بیٹھ کے سیاست نہیں کر سکتے،کچھ عالمی قوانین اُن کے راستے کی دیوار بن جائیں گے۔نواز شریف پہلے بھی مشکل حالات کی وجہ سے بیرون ملک گئے ہیں،پرویز مشرف کے دور میں انہیں سعودی عرب جانا پڑا تھا، تاہم ایک معاہدے کی وجہ سے وہ سیاسی طور پر خاموش بھی رہے تھے اور اُن کی سزائیں بھی ختم ہو گئی تھیں۔اب معاملہ مختلف ہے۔ وہ عدالت سے سزا یافتہ ہیں اور مختصر مدت کی ضمانت کرا کے لندن گئے تھے۔
نواز شریف غالباً اس بات کا انتظار کر رہے ہیں پاکستان میں عام انتخابات ہوں تو وہ واپسی کا سفر کریں،درمیان میں اپوزیشن نے تیسری کوشش کی حکومت گھر چلی جائے اور عام انتخابات کا انعقاد ہو، مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی،اب امکان یہی ہے انتخابات طے شدہ پروگرام کے مطابق 2023ء ہی میں ہوں گے۔نواز شریف اُس وقت تک لندن میں رہنا چاہتے ہیں،کیونکہ اس سے پہلے پاکستان آ کر وہ کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، انتخابات کے موقع پروہ پاکستان آئے اور انہیں جیل بھیج دیا گیا تو اس کا مسلم لیگ(ن) کو سیاسی فائدہ ہو گا۔اُس کی انتخابی مہم میں جان پڑ جائے گی۔مریم نواز اس بات کو انتخابی جلسوں میں خوب اچھالیں گی اور حکومت پر کڑی تنقید کرنے کے لئے بہترین جواز میسر آ جائے گا۔اُس دوران عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔اگر نواز شریف ضمانت پر رہا ہونے میں کامیاب رہے یا ان کی سزا کالعدم قرار دے دی گئی تو اُن کے باہر آنے سے مسلم لیگ (ن) میں جان پڑ جائے گی،تاہم یہ سب مستقبل کے اندازے اور قیاس آرائیاں ہیں، نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، یہ انہی کو معلوم ہے البتہ یہ بات طے ہے کہ وہ اپنا موقف تبدیل نہیں کریں گے،ہتھیار نہیں ڈالیں گے، وہ اس حوالے سے کشتیاں جلا چکے ہیں،اس کا ثبوت یہ ہے وہ شہباز شریف کو کسی قسم کا گرین سگنل دے رہے ہیں اور نہ مریم نواز کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں۔