مہنگائی کے فوائد


یہ ورکشاپ ایک قومی فورم پر ہو رہی تھی۔ پورے ملک میں مہنگائی کا سیلاب آیا ہوا تھا۔ہر طرف ہاہاکار مچی تھی اور لوگ مہنگائی کے مضر اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے تھے۔

ان حالات میں ملک کے ایک شخص نے بھیڑ چال کا شکار ہونے کی بجائے اعلان کیا کہ مہنگائی کا دامن فوائد سے بھرا ہے۔ یہ سن کر غیر تو غیر اپنے بھی اس کا مذاق اڑانے لگے۔یہ کوئی عام انسان نہیں تھا بلکہ مشہور پروفیسر تھا۔جب مذاق ممنوعہ حدود کو چھونے لگا تو پروفیسر صاحب نے ملک کے مشہور مفکرین کو اکٹھا کر کے اس ورکشاپ کا اہتمام کیا۔اتوار کا دن تھا، میڈیا چینل اس ورکشاپ کو لائیو دکھا رہا تھا۔پروفیسر صاحب کی تمہید نے تمام ناظرین اور سامعین پر علمی دھاک بٹھا دی تھی،لہٰذا جب انہوں نے اصل موضوع کی طرف بڑھنے کی بات کی تو لوگوں کی دلچسپی اور بڑھ گئی۔

پروفیسر صاحب نے گلا صاف کیا اور بولے، ”مہنگائی نہیں بڑھی، بلکہ ہم لوگوں نے اپنی ضروریات بڑھا لی ہیں۔ہم مسلمان ہیں۔کیا قرآن و حدیث میں کوئی ایک بھی نص موجود ہے کہ بجلی استعمال کرنا واجب ہے؟ایئرکنڈیشنر، واشنگ مشین، اوون، پنکھے، جوسر مشین اور دیگر ہوم اپلائنسز استعمال کرنا ضروری ہے ورنہ جنت نہیں ملے گی؟ آپ صرف اس قسم کے خرافات سے جان چھڑا کر بل کی مد میں ہزاروں روپے بچا سکتے ہیں۔تمہیں کس نے مجبور کیا ہے کہ جب بھی باہر نکلو ٹیکسی کراؤ یا پھر اپنی گاڑی خریدو؟ ویسے توپیدل چلنے کے فوائد گنواتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں، لیکن خود پیدل چلتے ہوئے موت پڑتی ہے۔کبھی حساب لگایا ہے کہ پیدل چل کر آپ کتنا دھن بچا سکتے ہیں؟گاڑیاں نہیں تو ایکسیڈنٹ نہیں، ایکسیڈنٹ نہیں تو زخمی اور اموات بھی نہیں۔یعنی ڈاکٹر، ہسپتال، میڈیکل ٹیسٹ، کفن دفن، رسم قل اور چالسیویں پر لاکھوں روپیہ بچے گا یا نہیں؟بلکہ گاڑیاں نہ ہونے سے فضا میں آلودگی کا خاتمہ ہوگا، کسی کو آنکھوں کا مسئلہ درپیش نہیں ہو گا۔لوگ مرنے تک بینائی سے محروم نہیں ہوں گے۔

کیا مکان بنانا ضروری ہے؟سب سے زیادہ خرچ اسی پر ہوتا ہے۔کئی نسلیں ادھار چکاتے چکاتے بوڑھی ہوجاتی ہیں،لیکن اگر آپ مکان نہ بنائیں اور ایک خیمہ لگا لیں تو کروڑ پتی نہ سہی لکھ پتی تو بن سکتے ہیں۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ زلزلے کی صورت میں جانی نقصان بھی نہیں ہو گا اور دوسرا یہ کہ اس خیمہ کو کسی بھی وقت من پسند لوکیشن پر شفٹ کیا جا سکتا ہے۔آپ اپنے اپنے موبائل نکالیے اور ابھی گوگل کیجئے کہ ملک میں شوگر کے کتنے مریض ہیں اور ان کے علاج معالجے پر کتنا خرچہ ہو رہا ہے؟لیکن سوچیں کہ اگر چینی مہنگی ہوجائے اور لوگ اسے بمشکل چائے کے لئے ہی افورڈ کر پائیں تونہ صرف اس موذی مرض سے، بلکہ ہڈیوں کے کئی امراض سے بھی بچا جا سکتا ہے۔مہنگائی کا فائدہ ہوا یا نہیں؟اب لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجئے کہ کل ہی ایک تحقیق نظروں سے گزری کہ دِل کی زیادہ تر بیماریاں گھی اور آئل کی وجہ سے ہوتی ہیں۔آپ کو معلوم ہو گا کہ دِل کا علاج لاکھوں میں پڑتاہے اور ٹرانسپلانٹ تو کروڑوں میں بھی بمشکل دستیاب ہوتا ہے اور وہ بھی صرف بیرون ملک۔اگر ملک میں آئل مہنگا ہوا ہے توظاہر ہے کہ لوگ کم خریدیں گے اور ”پھونک پھونک“ کر اسے استعمال کریں گے۔ جب گھی اور آئل سستا تھا تو”آئل میں سالن“ ہوتا تھا، لیکن جب سے مہنگا ہوا ہے تب سے ”سالن میں آئل“ ڈالا جاتا ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا استعمال کم ہو گا، دِل کی دھڑکن بڑھے گی اور شریانیں کھلی رہیں گی۔یوں نہ بائی پاس ہو گا اور نہ ہی ٹرانسپلانٹ۔اب آپ ہی بتایئے کہ مہنگائی کا فائدہ ہوا یا نہیں؟دِل سے متعلقہ امراض پر اٹھنے والا آپ کا لاکھوں روپے کس نے بچایا؟ کسی رہنما نے نہیں، بلکہ صرف مہنگائی نے۔

آپ ذرا باہر تو نکلیں اور دیکھیں کہ کیسے کیسے پیٹ اٹھا کر لوگ بمشکل چل،بلکہ گھسٹ رہے ہیں۔ جدید دنیا موٹاپے کو سینکڑوں بیماریوں کی ماں کہتی ہے۔جب یہ موٹے لوگ کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تووہ ہزاروں روپے فیس لے کر چند ایک سائیڈ افیکٹ والی دوائیں لکھ کر کہتا ہے ”کھانا پیناکم کیجئے“۔ وہ پیٹو اس ڈاکٹر کی نصیحت پر عمل کرتا ہے اور اگر پیٹ ہلکا ہو جائے تو نہ صرف اس کی تعریفیں کرتا ہے،بلکہ دعائیں بھی دیتا ہے، لیکن مہنگائی یہی سہولت گھر کی دہلیز تک پہنچائے تو لوگ بددعائیں بھی دیں اور برا بھلا بھی کہیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے؟آٹا مہنگا ہو گا تو لوگ کم کھائیں گے اور موٹاپے سے محفوظ رہ کر کئی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔نہ جانے لوگ مہنگائی کو برا کیوں کہتے ہیں؟کسی بھی حکیم سے پوچھئے کہ سرخ مرچوں کے کیا نقصانات ہیں اوریہ کس طرح معدے اور جگر کا ستیاناس کرتی ہیں؟ایک چھٹانک زبان کے چسکے کی خاطر لوگ اپنی صحت کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ اگر مرچیں مہنگی ہو جائیں اور لوگ انہیں چسکے کی بجائے صرف ذائقے کے لئے خریدیں تو ان کا معدہ اور جگر کئی موذی امراض سے محفوظ رہے گا۔ہر چیز خوب ہضم ہو گی اور جگر بھی خون کی فیکٹری بن جائے گا۔جب خون جلانے والی مرچوں سے جان چھڑا کر کثیر مقدار میں خون  عطیہ کر کے ہمارا ملک بین الاقوامی سطح پر اپنا نام کما سکتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی ہزاروں فوائد ہیں، جن پر کسی دوسری نشست میں بات کریں گے۔فی الحال مجھے کسی اور فورم پر ”تمہاری کرپشن حرام، میری کرپشن حلال“ کے موضوع پر گفتگو کرنے جانا ہے، اور میں پانچ منٹ پہلے ہی لیٹ ہوں۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی