مسلم لیگ(ن) کا پری بجٹ چھکا



مسلم لیگ(ن) نے اپنے پری بجٹ سیمینار میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اگرچہ اس پری بجٹ سیمینار کی شدت کو کم کرنے کے لئے حکومتی وزراء نے بھی فوری ایک اجتماعی پریس کانفرنس کی اور جوابِ آں غزل کے طور پر بہت کچھ کہا، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اعداد و شمار کو نہیں جھٹلایا، البتہ مسلم لیگ (ن) دور کی خامیاں ضرور بیان کیں، حالانکہ اس وقت حکومت اپنا پہلا نہیں، تیسرا بجٹ پیش کر رہی ہے اور ماضی کے مردے اکھاڑنے سے اُس کی خراب کارکردگی کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ 


مسلم لیگ(ن) نے پہلی بار ایک اچھا کام کیا ہے اور  محض الزامات لگانے کی بجائے پوری تیاری کے ساتھ معاشی شعبے میں حکومت کی کارکردگی کاپوسٹ مارٹم کیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے اس پری بجٹ سیمینار کی صدارت کی اور اس سیمینار میں یہ نہیں لگا کہ مسلم لیگ(ن)  میں کوئی تقسیم یا انتشار موجود ہے۔ یہ ایک اچھی کاوش اِس لئے بھی ہے کہ آئندہ بجٹ میں اسمبلی کے اندر  اچھی بحث دیکھنے کو مل سکتی ہے، کیونکہ اس وقت کنفیوژن اس قدر ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں، معیشت کی اصل حالت کیا ہے، حکومت جو اعداد و شمار پیش کر رہی ہے، اپوزیشن انہیں غلط اور دھوکہ قرار دے رہی ہے۔اس سیمینار میں بھی حکومتی اعداد و شمار کو ہیرا پھیری قرار دیا گیا ہے۔ اُدھر وزراء نے بھی پریس کانفرنس میں یہ الزام لگایا کہ مسلم لیگ(ن) نے اپنے دورِ حکومت میں قرضے لے کر معیشت کو بہتر دکھایا حالانکہ معیشت بری طرح تنزلی کا شکار تھی، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی قرضے لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور 13ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا، جو اتنی کم مدت میں ایک ریکارڈ ہے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے حکومت بھی انہی قرضوں کی وجہ سے معیشت کو بہتر حالت میں دکھا رہی ہے؟


مسلم لیگ(ن)  نے کچھ باتیں تو سیمینار کی اہمیت بڑھانے کے لئے کی ہیں اور انہیں سیاسی باتیں کہا جا سکتا ہے،مثلاً تین برسوں میں پچاس لاکھ پاکستانی بے روزگار ہوئے اور دو کروڑ خط ِ غربت سے نیچے چلے گئے۔ اس حوالے سے کوئی مستند ڈیٹا دستیاب نہیں اور یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا ہی ہوا۔ البتہ مہنگائی کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ سامنے کی حقیقت ہے اور خود حکومتی محکمے بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔محکمہ شماریات روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی میں اضافے کو ظاہر کر رہا ہے، جو قابل ِ تشویش بات ہے، کیونکہ مہنگائی اگر روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے لگے تو عام آدمی کے لئے زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔مسلم لیگ(ن) کے پری بجٹ سیمینار میں جو اعداد و شمار بتائے گئے حکومت انہیں جھٹلا نہیں سکتی،نہ ہی وزراء نے اپنی کانفرنس میں انہیں غلط قرار دیا ہے، تاہم ان کا یہ کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی معاشی غلطیوں کا نتیجہ عمران خان کو بھگتنا پڑا ہے۔یہ بات حکومت کے پہلے بجٹ میں بھی کہی گئی تھی اور اب تیسرے بجٹ سے پہلے بھی کہی جا رہی ہے۔ کیا یہ حکومت کے پانچویں بجٹ تک بھی جاری رہے گی، تیسرے بجٹ تک بھی اگر حکومت ماضی کے اثرات کو زائل نہیں کر سکی تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کے پاس ایسی معاشی ٹیم نہیں،جو ملک کو گرداب سے نکال سکے۔ اب یہ کہہ دینے سے تو بات نہیں بنتی کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت نے معیشت کو مصنوعی طور پر اچھا رکھا ہوا تھا۔ یہ مصنوعی اور حقیقی کی بحث فضول ہے،اصل بات یہ ہے کہ معیشت بہتر تھی، عوام کے معاشی حالات اچھے تھے، مہنگائی کم تھی، لوگوں کی قوتِ خرید زیادہ تھی، چیزیں آج کے مقابلے میں سستی تھیں، بعض اشیاء تو آج کی نسبت نصف قیمت پر دستیاب تھیں، مثلاً چینی، آٹا، گھی اور سبزیاں پھل وغیرہ، بات کو سیاسی بنا دینے سے حقائق جھٹلائے نہیں جا سکتے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ تحریک انصاف کی حکومت بغیر تیاری کے آئی اور اُس کے ابتدائی غلط فیصلوں نے ملک کے ساتھ ساتھ اُسے بھی مسائل سے دوچار کیا۔


آج وزراء یہ کہہ رہے ہیں ہم نے آئی ایم ایف کو بتا دیا ہے کہ بجلی، گیس کے نرخ نہیں بڑھائیں گے۔ بعد از خرابی ئ  بسیار ایسا کیا تو کیا کِیا۔ اُدھر مسلم لیگ(ن) نے الزام لگایا کہ بجلی کا یونٹ 19روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اُدھر وزراء کو یہ کہنا پڑ گیا کہ اب مزید بجلی مہنگی نہیں کریں گے۔ یہی تو وہ غلطی ہے،جس نے ملکی معیشت کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ آج وزیر خزانہ شوکت ترین بھی یہ کہتے ہیں کہ اس بار آئی ایم ایف نے کڑی شرائط کے تحت قرضہ دیا، ان کڑی شرائط کو قبول کس نے کیا، اور اُس سے پہلے یہ بڑھک کس نے ماری کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ معیشت کو بھی سیاسی اَنا پر قربان کیا گیا،اور اُس کے نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس تو ہر حکومت گئی ہے، پیپلزپارٹی بھی اور مسلم لیگ(ن) بھی، مگر جس طرح آئی ایم ایف کے سامنے موجودہ حکومت نے گھٹنے ٹیکے اُس کی مثال نہیں ملتی، ایسی شرطیں بھی مان لی گئیں جنہیں آئی ایم ایف ماضی میں کبھی تسلیم نہیں کرا سکا،مثلاً عوام کو دیجانے والی سبسڈی کو ختم کرایا گیا،حالانکہ ہمارے جیسے ترقی پذیر مُلک میں عوام کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، کم از کم خوراک کے معاملے پر سبسڈی لازمی ہوتی ہے،تاکہ لوگ خود کشیاں نہ کریں اور اپنی محدود آمدنی میں جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں،حکومتی وزراء اسحاق ڈار کی جن پالیسیوں کو مصنوعی قرار دے رہے ہیں وہ یہی تھیں کہ عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لئے حکومت انہیں سبسڈی کے ذریعے ریلیف دیتی تھی، اُس وقت بھی آئی ایم ایف کا یہی دباؤ ہوتا تھا،مگر حکومت قبول نہیں کرتی تھی،موجودہ حکومت چونکہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا نعرہ لگا کر پھنس گئی، اِس لئے اسے ہر شرط قبول کرنی پڑی۔


مسلم لیگ(ن) نے پری بجٹ سیمینار کر کے اس بات کی نشاندہی کر دی ہے کہ آنے والا بجٹ اُس کی تنقید کا ہدف بنے گا اور اُس کے اعداد و شمار اگر الفاظ کا گورکھ دھندہ ثابت ہوئے تو بے نقاب ہو جائیں گے۔ حکومت کے لئے بھی یہ ایک وارننگ ہے کہ بجٹ میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرے۔ صرف ماضی کی حکومتوں پر الزام دھر کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی،عوام کی حالت آج کے مقابلے میں بہتر تھی، یہ سب کچھ سامنے کی حقیقت ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے بڑی اچھی بات کی کہ اس بار نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے، بلکہ ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔ گویا نئے ٹیکس گزاروں کا اضافہ کیا جائے گا، جس پر ہمیشہ ماہرین معاشیات نے زور دیا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اِس بار بجٹ اجلاس میں شور شرابے کی بجائے مثبت بحث و مباحثہ ہو گا تاکہ بجٹ کے حقیقی خدوخال عوام کے سامنے آ سکیں۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی