یہ غلط فہمی عام ھےکہ فوج پر تنقید دراصل ریاست پر تنقید ہے
اس بیانیئےکو پچھلےساٹھ سالوں میں باقائدہ ایک منظم پروپیگنڈےکےذریعے عوام کےذہنوں پر مسلط کیا گیاھے
اور انکو باور کرایاگیا کہ فوج ہی ریاست ہےجبکہ عوام کے بنیادی حقوق فوج یعنی ریاست کے مفاد کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتے
اسی بیانیئےکیوجہ سے فوج نے بحیثیت محکمہ بتدریج اپنےآپکو ہر قسم کی تنقید سےمستثنا قرار دیتےہوئےسوال جواب کےسارےراستے بند کر دیئےہیں مسلسل پراپگینڈےکا شکار رہنےوالے عوام کو یہ ادراک ہی نہیں کہ حقیقت دراصل اس بیانیئےکے بالکل برعکس ہے
افسوس کہ جرنیل بتدریج پروپیگنڈا کےذریعے فوج کو ادارہ کہہ کر پارلیمنٹ کے برابر لے آئےہیں
آپکو تو یاد ہوگا آپ ہمیشہ محکمہ دفاع کہتے آئےہیں۔ سب دوستوں کو چاہئےکہ خود،دوسروں کو اور خاص طور پر سیاسی لیڈروں کو کہ اسےمحکمہ کہنا شروع کری لوگوں کی نفسیات میں جب اصلیت بیٹھےگی تو سیاسی طور پربہت فرق پڑےگا
لوگ بھول چکےہیں اگر آپ محکمےکو محکمہ سمجھنا اور کہنا شروع کر دینگےتو آپکو یہ یاد رہے گا کہ فوج بحیثیت محکمہ آپکے ٹیکس سے تنخواہ لیتی ہے ووٹ کے زریعےچنے ہوئے وزیر دفاع اور وزیر اعظم کےتابع ہے۔ پھر اگر کوئی بائیسویں گریڈ کا افسر یعنی جرنیل خود کو ملکی قوانین اور اداروں سےاوپر سمجھتےہوئے اپنی حدود سےتجاوز کرےگا تو آپ خود کھڑے ہوکر اسکو راہ راست پر آنےکیلئے مجبور کر سکیں گے
کسی محکمےکا خود کو ریاست کا درجہ دےکر عوام کےبنیادی حقوق یا عوامی آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانا نہ صرف آئین شکنی ہے بلکہ یہ اقدام آئین پاکستان کی روح ریاست سے غداری کے زمرے میں آتا ہے
اگر دیکھا جائےتو عوام اکثر پولیس، ریلوے، واپڈا یا دیگر اداروں پر کھل کر تنقید کرتے ہیںلیکن فوج کی بات ہو تو سب کی زبان پر تالےلگ جاتےہیں
اسکی وجہ کیاھے؟
ہماری بدقسمتی یہ رہی ہےکہ قیام پاکستان کےچند سالوں بعد ہی ایک فوجی جرنیل نےاقتدار پر قبضہ کرلیا جبکہ اس خطے کےعوام اپنےسیاسی حقوق سےناواقف تھے آمریت کو طول دینےکیلئے اس جرنیل نےہرممکن طریقےسےنہ صرف عوام کو اپنےآئینی حقوق سے بےخبر رکھا بلکہ پراپگینڈے کےذریعےسیاست اور جمہوریت سے بےخبر عوام کو یہ باور کروا دیاگیا کہ فوج ہی ریاست کی ضامن ہےاور فوج کا مفاد دراصل ریاست کا مفاد ہے
یہی وجہ ھے
کہ پچاس کی دھائی میں ایک پرعظم طریقےسےعوام کی فلاح و بہبود کا عظم رکھنےوالی ریاست آج محض چند لاکھ فوجیوں کی فلاح و بہبود تک محدود ہوکر جرنیلوں کی ایک تجربہ گاہ بن چکی ہے
افسوس کہ عوام کےحقوق کی بات کرنا اور فوج کی اس زیادتی پر آواز اٹھانا اب اس ریاست میں ایک جرم بن چکاھے
بلکہ فوج کو حساس ادارہ قرار دے دیا گیاھے جسکی حساسیت کو متاثر کرنے والوں کو زبردستی لاپتہ کردیا جاتاھے
ساٹھ کی دہائی میں فوجی آمریت کےخلاف اور عوام کےحق میں آواز اٹھانے پر مادر ملت فاطمہ جناح کو غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دینےسےشروع ہونےوالا یہ سلسلہ چلتا رہا اور غداروں کی لسٹ طویل ہوتی چلی گئی
لیکن اسکےبرعکس آئین شکنی کرنیوالے اور اپنےحلف سےغداری کرنیوالے جرنیلوں کو یہ قوم سر آنکھوں پر بٹھاتی آئی ہے
اب چاہےوہ جرنیل عوام کےٹیکس کےپیسےکو عوام کےخلاف استعمال کریں، ملک میں ایک مافیا کے طور پر خوف ہراس کی فضاء پیداکریں سیاست میں مداخلت کریں۔
امریکہ سےڈالر لےکر ملک کو دہشتگردی کا مرکز بنا دیں یا کشمیر کو بھارت کےحوالے کرکے ساٹھ سال پرانی کشمیر کی تحریک کو ختم کر دیں
انکےخلاف کوئی آواز اٹھانےکی جرات نہیں کرتا اور اگر غلطی سے کوئی ایک آدھ بندہ آواز اٹھاتا ہے تو اسکی زبان بن کر دیجاتی ہے، اگر زبان بند نہ ہو تو بندہ یا تو لاپتہ ہو جاتاہے یا پھر مارا جاتا ہے
مشہور صحافی سلیم شہزاد کا اغوا اور قتل اسکی ایک مثال ہےغرض یہ کہ فوج نےایک مافیا کےانداز میں ملک کےاندر خوف و ہراس کی ایسی فضاء قائم کردی ہےکہ اب لوگ بڑی سے بڑی زیادتی کےخلاف بھی آواز اٹھانےسے ڈرنےلگےہیں اور ایسےمیں عوام کی اکثریت ابھی بھی فوج کو ریاست کا درجہ دےکر خود کو محکوم سمجھتی ہے
ماضی میں فوج پر کئی الزامات لگے اور چند ایک الزامات عدالتوں میں ثابت بھی ہوئےلیکن اجتماعی طور پر ہمارے ذہن اتنےناکارہ بنا دیئےگئےہیں کہ ہم اپنی آنکھوں سےسب کچھ دیکھ کر بھی سوال نہیں اٹھاتے
بندوق کے زور پر مارشل لاء لگائےگئے لیکن کسی نے احتجاج نہیں کیا
ہزاروں شہریوں کو ماورائےعدالت اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا اور یہاں تک کہ عدالت نےاسکا نوٹس بھی لیا لیکن عوام کو کوئی تشویش نہیں ہوئی فوج نےسیاست میں براہ راست مداخلت کی لیکن کسی کو اعتراض نہ ہوا اصغر خان کیس میں عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ فوج نے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کروا کر حکومت گروائی۔ لیکن مقدمے میں نامزد جرنیلوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
مشرف پر مقدمہ چلا تو اس وقت کی حکومت پر دھرنوں کے ذریعے دباؤ ڈال کر اس کو مرمی چیف نے سیاسی مداخلت کی وجہ سے حالات کو اس نحج پر پہنچا دیا کہ اس بےحس قوم میں بھی تھوڑی ہمت اور غیرت جاگی جسکےنتیجے میں پہلےاسلام آباد کےڈی چوک پر اور بعد میں لاہور کی عدالت میں جرنیلوں کےخلاف نعرےلگائےگئے ایسا ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پنجاب میں فوج کےخلاف نعرےلگے لیکن ان واقعات کےفوری بعد نعرے لگانےوالوں کو اغوا کر لیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔
کچھ عرصہ پہلے لاہور کی عدالت میں فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک وکیل کو اغواء کیا گیا اور بعد میں جب سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہو گیا کہ اغواء میں فوج ملوث ہے تو خاموشی سے اس کو چھوڑ دیا گیا۔
اسکے علاوہ کرنل انعام لرحیم اور ادریس خٹک جیسے وکیلوں کا اغوا جو مسنگ پرسنز کےکیس لڑ رہےتھے
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کس اختیار یا کس حیثیت سےایک ادارے کے ملازم ملک کےشہریوں کو اغوا کرتے ہیں؟
مزید یہ کہ اگر کسی بھی ادارےکا ایک محکمہ مسلسل اپنی آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کرتا ہے اور عوام
کےحقوق کو پامال کرتا ہے تو اس پر تنقید کیوں نہیں ہو سکتی؟
اگر جرنیل اور ان کی اولادیں ارب پتی بن جاتی ہیں تو ان کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟
آخر کب تک اس ملک کے عوام اور ادارے ایک مخصوص محکمے کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے؟
آخر کب تک؟
۔خدا کیلئے ذاتی مفادات سے نکل کر ملک کی فکر کرو
منجانب؛ آر ایچ ریاض