حامد میر کے متعلق ہمیں کبھی غلط فہمی ہو گئی تھی کہ اسامہ بن لادن کے انٹرویو کے پیچھے پاکستانی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ تھی جنہوں نے میر صاحب کو استعمال کیا اور اسامہ بن لادن کے اس دعویٰ کے انکی دسترس میں ایٹمی ہتھیار بھی ہیں کو افغانستان پر امریکی حملہ کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا ۔
ہم سمجھتے تھے کہ جس طرح صدام حسین کے پاس تباہ کن ہتھیاروں کو عراق پر حملہ کیلئے جواز بنایا گیا اسامہ بن لادن کا انٹرویو بھی افغانستان پر حملہ کا جواز تھا۔
اس بات کا انکشاف بہت بعد میں ہوا کہ اسامہ بن لادن کے انٹرویو میں ایٹمی صلاحیت کا دعویٰ کسی اور کا کارنامہ تھا، ان کا جنہوں نے اوصاف کے ایڈیٹر کے اسامہ بن لادن کے انٹرویو کو ڈان اور ایک امریکی اخبار میں اشاعت کا بندوبست کیا ۔
حامد میر نے جب بلوچستان میں لاپتہ افراد کے متعلق مسلسل کالم لکھنا شروع کئے تو ہم بھی ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین کے پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئے کہ حامد میر اپنی صحافت کو پاکستان کی سالمیت کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچ لاپتہ افراد کے معاملہ کو اٹھا کر ملک دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ۔ہم سمجھتے تھے کہ حامد میر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں سے نکل کر امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور اسی وجہ سے حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔
ہم غلط تھے حامد میر سچے تھے ۔آج ہم کہتے ہیں کہ اس ملک کو اگر کسی نے نقصان پہنچایا ہے وہ صحافی نہیں بلکہ چند فوجی جنرل ہیں جنہوں نے پاک فوج کا نام خراب کیا ۔
امریکیوں کے ایجنٹ بننے کا الزام حامد میر پر کم از کم نہیں لگایا جا سکتا بلکہ یہ الزام اُن پر سجتا ہے جنہوں نے بلوچستان میں نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کی پالیسی بنا کر صوبے میں مرکز گریز جذبات پیدا کئے ۔
ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس میں انصاف کرنے کی بجائے نواب اکبر بگٹی کو وہاں سے نشانہ بنایا جس کا دعویٰ جنرل مشرف نے کیا تھا کہ پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کہاں سے ہٹ کیا گیا۔ یہ اسی طرح کا دعویٰ ہے جو ابصار عالم پر حملہ کے بعد کیا گیا کہ "ہم کرتے تو ایسے نہ کرتے" ابصار عالم پر حملہ اگر" ہم" نے نہیں کیا تو پھر قاتلانہ حملے کے مرتکب پکڑے کیوں نہیں گئے۔ احمد نورانی پر حملے کی فرانزک زمہ داری پولیس سے لے لی گئی تھی تو حملہ آور بے نقاب کیوں نہیں ہوئے۔ مطیع اللہ جان کے اغواء کنندگان کیوں نہیں پکڑے گئے ۔
حامد میر جس وقت لاپتہ بلوچ نوجوانوں کا مسئلہ اٹھا رہے تھے وہ ایک سچے پاکستانی صحافی کے طور پر اپنی زمہ داری ادا کر رہے تھے۔ اب ایک اور نوجوان اسد طور پر حملہ کیا گیا ہے اور اس مرتبہ بھی حملہ آوروں کے چہروں سے نقاب نہیں اترے گا۔ یہ جو چند آوازیں بلند ہو رہی ہیں انہیں خاموش کرنے کی کوشش کرنے والے غدار ہیں۔ وہ چہروں پر نقاب لگائے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملک سے بھاگ جانا ہے ریاست کو ان کے فیصلوں سے کیا نقصان پہنچا انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔ یہ لوگ اس 99 فیصد فوج کیلئے بہت بڑا بوجھ ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن ناکردہ گناہوں کے سزا وار ہیں ۔
پہلے لال مسجد آپریشن سے پاکستانی طالبان کو مخالف بنا لیا اب امریکیوں کو زمینی اور فضائی حدود دے کر افغان طالبان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ مذہب کو جس طرح اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا اسکی ادائیگی کرنا ابھی باقی ہے۔
جس آگ میں دوسروں کو جلایا اس میں خود جلنے کا ماحول بن رہا ہے۔ ایٹمی صلاحیت کے حصول کے بعد روایتی جنگ میں شکست کا تصور کیا ختم ہوا ان لال بجھکڑوں نے چہار طرف تلوار چلانا شروع کر دی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ایٹمی صلاحیت کو بھارتیوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بلف ثابت کر دیا ہے۔ روایتی ہتھیاروں میں لڑائی کیلئے معیشت ہی موجود نہیں اور ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی جرات اور ہمت ڈی ایچ اے میں پلاٹ لینے کی سوچ نے ختم کر دی ہے۔
جنرل جہانگیر کرامت ،جنرل شجاع پاشا، جنرل راحیل شریف اسر دیگر نے اپنی سروسز دے کر غیر ملکیوں سے معاوضہ لینے کا جو سلسلہ شروع کیا اس کا ایک کردار جنرل مشرف بھی ہے جیسے سعودیوں نے نہ جانے امریکیوں کے کہنے پر پیسے دیئے یا خادم الحرمین الشریفین کے دل میں خود سے شفقت پیدا ہو گئی لیکن یہ سلسلہ پاک فوج اور اس ملک جس کا نام پاکستان ہے کے ہر گز مفاد میں نہیں ۔
اس ملک کو بچانا ہے اور اقوام عالم میں طاقتور بنانا ہے تو ان لوگوں کو کٹہرے میں لانا ہو گا جنکی وجہ سے پاکستان پر دہشت گردی پھیلانے کے الزامات لگے ہیں۔ یورپین یونین نے ٹیکسٹائل برآمدات کی ترغیبات ختم کی ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تلوار سر پر لٹکی ہے۔ اقوام متحدہ میں جیش محمد اور حافظ سعید کا نام لیا گیا ہے۔ برطانیہ نے مخصوص ترسیلات زر پر پابندی لگائی ہے ۔
حامد میر اگر کہتا ہے اس ملک کو نقصان پہنچانے والے کوئی اور ہیں تو پھر اس الزام پر میر صاحب پر دوسرا حملہ بھی بنتا ہے ۔
